” خان عباس خان “سے ”شہزادہ گشتاسپ خان“ تک کا سفر ؟

 شہزادہ گشتاسپ خان کے تایا عباس خان تاریخ کے جھروکوں میں ، وزیر ذراعت آنر ہبل خان صاحب محمد عباس خان وزیر زراعت صوبہ سرحد کے اعزاز میں مورخہ 17/2/1937میں اہلیان پکھلی کی جانب سے گیدڑ پور کے مقام پر خان محمد افضل خان نے ایک سپاسنامہ پیش کیا ،کتاب گوہر نایاب صحفہ 73کے اقتسابات ،عالی جناب آنر ہبل محمد عباس خان ، ہم خدا کا ہزار ہزار شکر ادا آج ہم آپ کو صوبہ سرحد کے وزیر زارعت کے عہد پر دیکھتے ہیں ، اس خوشی کا ہمارے محترم بھائی آج بیان کرنے سے قاصر ہیں ، ایسے تو آپ کا خاندان مدت سے صاحب جاہ و تمکنت رہا ہے ، لیکن آپکی پہلی حالت اور اس حالت میں بہت زیادہ فرق ہے۔ آپکے خاندان کے پہلے اعزاز ات حکومت کے خدمات کے صلہ میں حاصل کئے ہوئے تھے ، جوکہ چنداں قابل فخر بات نہیں ہو سکتی ۔ لیکن آپ کی موجودہ پوزیشن قومی خدمات کو دیانتدار ی سے سرانجام دینے کی وجہ پر قوم سواتیاں جتنا فخر کرے کم ہے۔ کیوں کہ آپ نے یہ ثابت کردیا ہر شخص حکومت برطانیہ کا خیر خواہ بھی رہ کر اور خیر خواہ سرکار خاند ان کا فرد بھی ہو کر اپنی قوم کی خدمت صحیح طریقہ پر کرے ، تو قوم اسکو محبوب بنا سکتی ہے ۔ آجکل یہ خیال آپ کے عملی کاموں نے پایا ثبوت تک پہنچا دیا !!!ہرکہ خدمت کر و مخدوم شد ،، کا مقولہ صحیح ہے۔ آپ کی قومی خدمات کا سلسلہ گزشتہ سرحدی کونسل کے پانچ سالہ ریکارڈ کے ملا خطہ سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے ، او ریہی وجہ تھی کہ آپ کی خودار اور صحیح جذبہ حب الوطنی کا عملہ نمونہ اس علاقہ کے لوگوں نے دیکھا او ر اسکی قدر اس صورت میں کی کہ دوبارہ آ پکو بڑی اکثریت میں ووٹ دیکر کامیاب بنایا !!!، او رپھر قوم پرست طبقہ نے آپ سے زیادہ تعلیم یافتہ حضرات کو محض اس لئے نذر انداز کرکے آپکو وزیر زراعت کا قلمدان سونپ دیا۔ کہ آپکو مخلص اور ثابت قدم اور خودار اور مسلمہ قومی خدمت گار ، تجربہ سابقہ میں ثابت کردیا تھا ۔۔ آ پ سابقہ پانچ سال میں اپنے والد مرحوم کے زمانہ میں بھی دیانتداری سے بڑے بڑے اثرات کی موجودگی میں سرحدی کونسل میں کسی کے ہاتھ پر نہ بکے اور اپنی قوم پرستی کے عقیدے پر قائم رہے ۔ ہم حاضرین دعاگو ہ ہیں کہ اللہ تعالی آپکو آئندہ بھی ایک بے لوث قومی خادم ثابت کرے ( آمین ) او ر اب ہم لو گ آپ کے سامنے اپنی ملکی ضروریات کے متعلق چند ضروری گزارشات کرنے کے بعد اپنے سپاسنامے کو ختم کردیں گے !!! اور امید کرتے ہیں کہ اس غریب اور بے بس قوم کا خیال آپ نے اپنے دل میں رکھ کر اس کی بے بہبود و ترقی کےلے جس قدر آپ سے کوشش ہوسکے گی کریں گے؟
نمبر 1ہماری اقتصادی حالت آپ سے پوشیدہ نہیں اس کو درست کرنے کےلئے عملی اقدام اٹھا کر ہم موجودہ تباہی سے بچایا جائے۔۔۔۔
نمبر 2ہماری تعلیی حالت نہائیت پست ہے ، اور بوجہ مالی کمزور ی کے ہم اپنے بچوں کو دور دراز جگہ تعلیم دلا نے کے قابل نہیں اس لئے ہمارے بچوں کےلئے علاقہ پکھل پائیں میں ” اینگلورنی کل مڈل “ و بفہ میں ہائی سکول کا انتظام کیا جائے ؟
نمبر 3 اس موجودہ وقت میں رشوت ستانی محکمہ جات معتلقہ کے اندر اس قدر زیادہ ہے ، کہ انصاف حاصل کرنے لئے بڑی قیمت ادا کرنی پڑھتی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمبر 4محکمہ جنگلا ت کے افسران نہائیت شددت کررہے ہیں ان کی حالت کو سدارا جائے اور انکو ”تشدد و رشوت خوری “سے روکا جائے ،
نمبر 5 ژالہ باری کی وجہ سے اس علاقہ میں بلخصوص ”خواجگان “ شیر ،پو رملک پور ، گیدڑ پور ہ ہردو ترہا ، خاکی ، ترنگڑی ، صابر شاہ ، میں نقصان عظیم ہوا ، اس علاقہ میں زمینداران نہائیت ہی ناگفتہ بہ حالت میں ہیں ، گو رنمنٹ سرحد کے گوش گزار کرایا جائے، کہ کوئی عملی قدم اس علاقہ کے زمینداران کیلئے اٹھایا جائے ۔۔۔نمبر6ہمارے گزار ہ کو محکمہ جنگل کے انتظام سے نکال کر سابقہ حالت پر چھوڑا جائے اور ایک کمیٹی جرگہ کے سپرد اسکا حفاظتی نظام کیا جائے،۔ تاکہ ہم روز مر کے حالا ت زندگی سے ہودا برا ہوسکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نمبر7محکمہ زراعت کے زیر انتظام ہماری زرعی حالت کو ترقی دینے کےلئے علاقہ پکھل پائین ہے ، ایک زراعتی فارم بنایا جائے ، تاکہ بہتر تخم اور درختوں کے باغات لگانے میں وہ فارم ہماری امداد کرے ۔اور یہ علاقہ آبپاشی ہونے کے وجہ سے بہتر غلہ اور بہتر اقسام کا مہیوہ پیدا کرسکے ، اور عام طور پر اس علاقہ کی حالت اس طرح سدھر سکتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نمبر 8 چونکہ مدد ت سے اس علاقہ کی ترقی کا خیال کبھی بھی نہیں کیا گیااور نہ کبھی اس علاقہ کی بہبودی، کے لئے گورنمنٹ سرحد نے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا ،
نمبر7بلکہ مالیہ و دیگرحاصلات اور علاقوں سے ہم زیادہ بہتر طریقہ سے ادا کرنے کے باوجود سہولیات سے محروم ہیں ؟
جواب میں انہتائی خوبصورت انداز میں خاب عباس خان نے سپاسنامہ کا جواب دیا اور بعض مسائل کے حل کو موقع پر حل کی ہدائیت کی اور بعض کی یقین دھانی کرائی ۔
تاریخ کے جھرو کوں میں اگر دیکھا جائے تو اس خاندان کا کردار نمائیاں دکھائی دیتاہے ، اسی خان کے چشم چراغ ، میری مراد سابق اپوزیشن لیڈر سرحد اسمبلی شہزادہ گشتاسپ خان سے مذید اس صدی کے حوالہ سے بات چیت کرتے ہیں، الیکشن 2013میں حلقہ PK55پر مفتی کفائیت اللہ اور حاجی صالح کے مقابلہ میں شکست سے دوچار ہوئے مگر ہمت نہیں ہارے اپنے جنبہ گروپ کو مضبوطی کے ساتھ تھامے ہوئے ہیں اور مکمل طور پر ،پر امیدہیں کہ آئندہ 2018ءکے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے ، پاکستان مسلم لیگ سے شروع ہونے والا یہ سیا سی سفر آج پی ،ٹی ، آئی تک پہنچ چکا ہے کیوں کہ شہزادہ گشتاسپ خان آجکل پی،ٹی ، آئی میں شامل ہیں ، آئیں ان سے موجودہ صدی میں مذید بہتر ی وترقی کے بارے میں جانے گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سابق صوبائی وزیر داخلہ و پی ٹی آئی کے رہنما شہزادہ گشتاسب خان نے میرافضل گلزا کو دئیے گئے ۔ خصوصی انٹرویوں میں کیا کہا ہے ”قارئین “ کی نظر کرتے ہیں شہزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ ، مانسہرہ ایک پرانا شہر اور قدیم تہذیبوں کا مرکز بھیرہا ہے ۔ آشوکا ،دی گریٹ کے فردودات ہوں یا ترکوں کا دارالخلافہ گلی باغ چائنہ اور کشمیر کا گیٹ وے ہونے کی وجہ سے مانسہرہ کی مذہبی معاشی اور جغرافیائی اہمیت توہمیشہ سے قائم رہی ہے !!!مگر دوسری طرف مانسہر کا سیاسی اور تاریخی حوالہ بھی کافی مضبوط رہا ہے ”تحریک خلافت“ ہو یا آزادی کی تحریک ”پاکستان “سیاست مانسہرہ کا ہمیشہ بٹرا فعال کردار رہا ہے !!!جب کانگریس کی حکومت تھی تو میرے                                                                                              تایا عباس خان آذاد گُروپ کے پلیٹ فارم سے کانگریس کی حکومت میں وزیر مال رہے ہیں ۔۔بانی پاکستان” قائد اعظم محمد علی جناح“ کی دعوت پر وہ وزارت چھوڑ کر مسلم لیگ میںشامل ہوئے۔اور ریفرنڈم میں انکا بڑا اہم کردار رہا ہے،میرے والد نے قیام ”پاکستان “کی تحریک میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی ،پاکستان بننے کے بعد حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ کے مغربی ”پاکستان “کے عہددار بھی رہے ہیں۔قیوم خان کے ساتھ اختلافات کی بنیاد پر والد محترم نے مسلم لیگ چھوڑ کر عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی ،مانسہرہ کی سیاست ہزارہ کی لیڈنگ سیاست رہی ہے،سند 1962ءکے الیکشن میںمیرے ، چچا”حنیف خان“ ایڈوکیٹ کامیاب ہوئے ،اور پارلیمانی سیکرٹری بنے،اس زمانے میں مانسہرہ سے حویلیاں قومی اسمبلی کا ایک ہی ممبر ہوا کرتا تھا ۔۔اس کے بعد دوسرے الیکشن کامیابی کے بعد مشرقی ومغربی پاکستان کے چیف پارلیمانی سیکرٹری رہے ،1970ءمیںمیرے چچا”حنیف خان“ وفاقی وزیر اطلاعت جبکہ اُنکے والد صوبائی وزیر مقرر ہوئے ،ضیاءالحق کے مارشلا ءکے بعد سیاسی ذمہ داری میرے کندھوں پر آن پڑی ضیاءالحق کے دور کے بعد مانسہرہ کی سیاست پر جو زنگ پڑا ہے ،وہ مذید گہرا ہوتاچلا گیا۔۔اور آج بھی مانسہرہ کی سیاست اسی سیاسی زنگ میں رنگی نظر آتی ہے!!! پہلے کی سیاست ویثرنری تھی ،آج نالی،ٹوٹیوں کی سیاست سکڑ کر رہ گئی ہے ۔۔ویژنری لوگوں کے اختلافات رائے ہوتا،بھی تو وہ باہم مل بیٹھ کر علاقہ کی ترقی کیلئے کسی ایک نقطہ پر اتفاق کرلیتے تھے ،لیکن آج دنیا آگے اور ہم پیچھے کی طرف دوڑ رہے ہیں۔۔ زمانہ بڑا ،سپورٹیو ہے ،ہم تقسیم نہ ہوتے تو علاقہ بہت جلد ترقی کر سکتا تھا۔،سیاستدانوں کیساتھ ساتھ بدقسمتی سے ہماری حکو متوں کے رویے بھی ویسے ہی رہے ہیں ،شروع میں وزیر اعظم جونیجونے آٹھ نکاتی ترقیاتی پروگرام شروع کیا،انکے جاتے ہی پیپلز پارٹی کی حکومت آئی ،انہوں نے آٹھ نکاتی پروگرام کو رد کرکے پیپلز پروگرام شروع کر لیا،بعد ازا ں،آنے والی نواز حکو مت نے پیپلز ورکس پروگرام رد کرکے تعمیر وطن پروگرام اور ایک بار پھر آنیوالی پیپلز حکومت نے تعمیر وطن پروگرام کو رد کر کے سابقہ روایت کو برقرار رکھا ،حکومتوں کے وسائل اصل میں عام آدمی کے وسائل سے جڑے ہوتے ہیں !!!ان وسائل کے ضیاءسے ترقی بھی متاثر ہوئی ،اور منصوبے ادھورے رہ جانے سے معشیت تباہی کی جانب گامزن ہوئی ،سیاسی پوکرائزیشن ہوتی ہے ،سیاست ملکی نظام کو چلانے کانام ہے ،مگر بدقسمتی سے ہم نے سیاست کو جھوٹ ،فریب ،مکر اور فراڈبنالیا ہے،اور ہم خدمت کا جذبہ بھول گئے ہیں !!!ترقیافتہ ممالکوں کی اہلیت پہلی ترجیح ہوتی ہے،اور تعلیم عام ہونے کے باعث وہاں جمہوری رویوں کے حامل لوگ سامنے آتے ہیں ۔۔ور پھر وہ لوگ عوام کے مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کیلئے کام اور قانون سازی کرتے ہیں ۔ اور اس سے معیشت میں بھی بہتری آتی ہے ،لیکن ہم اس ڈگر سے ہٹ کر چل رہے ہیں !!!،جسکی کی وجہ سے یہاں پارلیمانی نظام فیل اور مارشلاءنافذ ہوتے چلے گئے !!!،یہاں لوگ شاٹ کٹ کے ذریعے امیر بننا چاہتے ہیں۔۔سیاست کی بنیاد غلط ہو تو اہلیت کے بجائے دولت اور برادریوں سے لوگ متاثر ہوتے ہیں ،!!!ہماری اپنی سوچ ہائی جیک ہے،آزادانہ رائے دہی نہیں ہوسکتی ،ہماری قیادت اہلیت کے بجائے خاندان ،موروثی،اور ذات برادریوں کی بنیاد آگے آتی ہے ،یہاں جو نظام سے بغاوت کا نعرہ بلند کرکے آتا ہے ،آگے چل کر وہ اسی فرسودہ نظام کا محافظ اور سرپرست بن جاتا ہے!!! پارلیمانی نطام کا اصل مقصد قانون سازی اور حکومت صرف پیشہ واراور اپنے اپنے شعبوںمیںنامورماہرین پر مشتمل ہونا ہے،پوری دنیا میں جمہوریت کے مختلف ماڈلزہیں ،فرانس ماڈل جرمنی سے مختلف ،برطانیہ امریکہ سے ،انڈیا روس سے مختلف ہے ،پوری دنیا میں اپنے ملک کے ماحول کے مطابق سیاسی نظام تشکیل دیا جاتاہے ۔۔،ہمارے ملک مین صرف ایوب خان کے دور کے ترقی کا دور کہا جا سکتا ہے۔۔،اس دور میں بڑے ڈیم اور بیراج بنے اوربڑے ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے ،میرے آبائی علاقی جنت نظیر وادی سرن میں سیاحت کے فروغ کے حوالہ سے بتاتا چلوں ۔ وفاقی و صوبائی پارلیمان میں مناسب نمائندگی کے باوجود یہاں سیاست کے فروغ کیلئے کام نہیں ہو سکا ،وادی سرن میں منڈھہ گچھہ ،دیولی ،جبڑ ،پلیجہ کوئی مصلہ شہیدپانی جبوڑی ، سم الہی منگ بوگڑ منگ ڈاڈر ، کو در کو قدرت نے انتہائی دلکشی و کشادہ سڑک کے ذریعہ چوڑ کوہستان کے ساتھ ملا جائے، تو سارا سال یہاں سیاح آجاسکتے ہیں، وزیر اعلی کے ،پی ، کے ، مانسہرہ آمد کے موقع پر وادی سرن پر خصوصی توجہ اور سیاحت کے فروغ کے حوالہ سے فوری اقدام کے جواب میں صوباءحکومت نے ڈائریکٹو جاری کیا ہے ، کہ ایسے پوائنٹ کی نشاندھی کی جائے جہاں کام ہوسکتا ہے لیکن اس علا قہ کی ترقی اورسیاحت کے فروغ کیلئے ، لا محدود وسائل اور انتہائی مخلص قیادت کی ضرورت ہے ، !!!سیاست کی اہمیت کے حوالہ سے اتنا کہوں گا،کہ اس وقت دنیاءکے متعدد مملک کی معشت سیاحت پر استوار ہے، جن میں ایک لینڈ لالڈ ملک سوئیز ر لینڈ بھی ہے، یہ ماڈرن ڈے انڈسٹری ہے ۔ سرن ویلی کو بذریعہ سڑک منڈ ی و براستہ کھنڈہگلی کوہستان سپٹ ویلی سے ملا نے سے سیاحت کے فروغ کے ساتھ ساتھ یہ علاقہ پوری دنیاءکے سیاحوں کا مرکز بن کر پاکستانی معشیت کو اپنے پاﺅں پر کھڑ ا کرنے کےلئے معاون ثابت ہوسکتا ہے۔۔
         ” میرافضل گلزار مانسہرہ “موبائل نمبر 03009115842/ 03469595551


Post a Comment