” وعدے کرکے صنم پھر نہیں آئے“
بدقسمتی سے سیاست کو ہمارے ہاں ایک منافعہ بخش دھند ا سمجھا جاتا ہے ۔ حالا نکہ سیاست حقیقت میں خدمت انسانیت کا دوسرا نام ہے ، جس کی الف ، ب ،سے ہم لوگ واقف نہ ہیں ،چھوٹے بڑے عام،خاص،سرکاری ، غیر سرکاری سب ہی سیاست کے نام پر الجھ کررہ گئے ہیں۔انتخابات کے دنوں میں تو جشن بہاراں ہوتے ہیں کو ئی منشور نہیں ہوتا کسی ضابطہ اخلا ق پر توجہ نہیں دی جاتی الیکشن جیتنے کی دوڑ میں ایسے ،ایسے پروپیگنڈے اور بلند وبانگ داعوے کئے جاتے ہیں کہ اللہ میری توبہ اسی لئے تو عذاب کی شکل میں زلزلے آتے ہیں جیسا کہ 8اکتوبر 2005 ءکوحولنا ک ز لزلہ آیا اور صدیوں کی ترقی کو چند لمحوںمیں زمین بوس کرگیا۔ سیاست پر بات ہورہی تھی،تو ایک فسلفی جسکا نام ہے ”برنارڈ شاہ “ ہے کا قول ہے کہ اگر سیاست کرنی ہوتو اس کےلے کم از کم عمر کی حد تین سو سال ہونا چاہیے ؟آ پ یہ سن کر
 حیران ہوں گے کہ یہ کیا بات ہو ئی اس صدی کے لوگوں کی عمر یں ہی توزیادہ سے زیادہ 50/60سال ہوتی ہیں تین سو سال والے کو
 لوگ ہوں گے تو ان کی اطلاع کےلئے عرض ہے کہ یہ بات انہوںنے شائد ہمیںسمجھانے کےلئے کہی ہوگی ۔ کیونکہ سیاست کرنا کوئی بچوں کو کھیل تو نہیں اور نہ ہر آدمی سیاست کو سمجھ سکتا ہے ،ہمارے ہاں سب چلتا ہے چار جماعتیں تعلیم حاصل کرکے جہلی ڈگری پر ایم ، این ،اے ،یا مدرسہ کی ڈگری پر ایم ، پی ،اے بن جانا کو ئی مشکل بات نہیں معزرت کے ساتھ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے ۔کیوں کہ یہاں پیسہ پھینگ تماشہ دیکھ والی بات ہے!!!۔ اور عوام تو عوام ہوتے ہیں وہ تو شاہد ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر ووٹ کاسٹ کرتے ہوں ۔ اس پر بھی غور کی ضرورت ہے ، خیر برنارڈ ے شاہ بھی درست کہتے ہوں گے کہ سیاست کےلئے عمر کی حد کم از کم تین سو سال ہونا چاہیے دو سوسال تو سیاست کو سمجھنے کےلئے درکار ہوں گے اور پھر ایک سو سال سیاست کرنے کے لئے ۔ ہمارے ہاں سیاست کا مزاج ہی کچھ اور ہے یہاں کوئی نہ کوئی ایشو ز درکار ہوتا ہے ، جس سے عوام کے مزاج کو پرکھا جائے اور چند لوگوں کوساتھ ملا کر جو واہ ، واہ بلے بلے کے نعرے لگائے جائیں ویسے بھی انتخابات دنوں میں اس کام کے ماہر بہت مل جاتے ہیں ۔ ہم بحثیت قوم ابھی ترقی یافتہ لوگوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں ہمارے ہاں بوٹوں والی سرکار سے لوگ زیادہ خوف ذدہ ہوتے ہیں اور ہر آنے جانے والے کو خندہ پیشانی سے قبول بھی کرلیتے ہیں۔۔ یہاںکی سیاست کا مزاج ہی بڑا نرالا ہے یہاں کام سے زیادہ شرافت کو ترجیع دی جاتی ہے ۔بس سیاست دان شریف ہونا چاہیے کام ہوںنہ ہوں ملک ترقی کرے نہ کرے سیاستدا ن وہ ہی اچھا جو اپنے عوام کے مزاج کے مزاج کو سمجھتا ہو زیا دہ ڈینگے نہ مارتا بالکل ٹھنڈا مزاج دس ہزار افراد کا جلسہ کرنے کے بجائے کسی ایک ورکر ووٹر سپورٹر غم خوشی میں شریک ہونے کا گرہ جانتا ہو !!! ہزاہ کے عوام کتنے خوش قسمت ہیں کہ صفدر جیسے نڈر اور قد آور شخصیت کا حسن انتخاب مانسہرہ کے حلقہ این ،اے 21سے ہوا ہے او روہ پنجاب ہاﺅ س میں بیٹھ کر اپنے حلقہ کے عوام کی بذریعہ بڑے بڑے اشتہار ات اور کواڈینٹرکے زریعہ عوام کی خدمت کرتے ہیں ۔ہر یونین میں کواڈینٹروں کی کثیر تعداد موجود ہے،وہ کہتے ہیں کہ سکیورٹی کے پیش نذر وہ غیر معینہ مدد کے لئے عوام سے دوررہیں گے او ر حلقہ میں نہیںآ سکیں گے !!!!! ۔۔اور اگر کوئی اس مسئلہ کے حل کی جانب توجہ دلا ئے تو جواب آتا ہے کہ موٹر وے بن رہا ہے تما م مسئلے حل ہوجائیں گے ، یہ سنتے سنتے کان پک گئے ۔ پرویز مشرف ، زرداری تک ایکسپرس وے کا سنتے تھے ،مگر نواز شریف نے اس میںاضافہ کا نعر ہ لگا ہے ہے کاشغر سے حسن ابدال تک موٹر وے بنے گا، عوام اس پر انتظار کریں ۔ مگر میاں صاحب کے داماد ایم ،این اے محمد صفدر نے ٹرانسفارمروں کی سیاست شروع کررکھی ہے ۔سو گھروں کو سو کے وی کا ٹرانسفارمر ملے گا، لوگ پھر بھی خوش ہیں میرے بھا ئی یہ ٹرانسفارمر محکمہ کے اپنے ہیں اور سیاسی چیف انجنئر کے ذریعہ عوام کی توجہ اصل میگا پروجیکٹ سے ہٹانے کےلئے کی جارہی ہے۔ اصل کام جو کرنے کے ہیں ان پر توجہ نہیں دی جاتی ۔ہمارے ایک باباجی ہیںجن کو حال ہی میں ا ذرد صحافت کا ایوارڈدیکر ادارے سے فارغ کیا گیا ہے ، ان کا کہنہ ہے کہ وہ بڑے منجھے ہوئے کالم نویس ہیںان کو حق گوئی کی سزا ملی ہے ۔ مگر باباکا حوصلہ بڑا بلند ہے فور ی ایک مقامی اخبار کا بیور چیف بنا دیا گیا ہے ، کام کرنے والا آدمی ہو تو اسکو کام کی کمی نہیں مگر بدنامی کا جو داغ لگ جاتا ہے اسکو دھوتے دھوتے کچھ وقت تو لگتا ہے ۔ !!ویسے تو یہ حقیقت ہے کسی نے کیا خوب فرمایا تھا بابا جی کہ دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے ۔ کیوں اک دن سجنا بھی مرجانا ۔ ہم تو نہ کسی کے دشمن ہیں اور نہ دوست بلکہ دستیاب معلومات کے مطابق اور زندہ ضمیر کی روشنا مثال کو سامنے رکھتے ہوئے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہتے رہیں گے ۔۔چاہے اس کےلئے کوئی بھی قربانی کیوںنہ دینی پڑھے۔ بہر حال بابا جی کا ہم دل سے احترام کرتے ہیں ہم ان کی ذاتی زندگی پر کو باعث نہیں کریں گے کہ وہ کھا تے کیا ہیں پیتے کیا ہیں ۔ اس بات کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں۔ ویسے بھی اس عمر کے لوگوں میںخداداد صلاحیتں موجود ہوتی ہیں۔ ان سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے ۔ مجھے یقین ہے کہ میں جس ادارے کے ساتھ ہوں وہ مجھے لکھنے پڑھنے اور بغیر تحقیق کے اپنے ادارے سے اس طرح قد غن لگا کر ہرگز فارغ نہیںکرے گا، کیوں کہ ایک مرتبہ یہ کڑا گھونٹ میں نے بھی چکھ لیا ہے ۔ مومن ایک سوراخ سے دومرتبہ نہیں ڈسا جاتا اور اگر پھر بھی ڈسا جائے تو وہ مومن نہیں بلکہ لا لچی ہوگا ۔جو اپنے مردہ ضمیرکے ہاتھوں باربار زلیل ہوتا ہے ۔ یہ الگ موضوع ہے اس پر پھر کبھی موقع ملا تو بات کریں گے ۔ بات سیاست اور سیاست دانو ں سے متعلق ہورہی تھی کہ عوام کے مسائل کس طرح حل ہونا چاہیںسیاست دان ووٹ سی بات کا لیتے ہیں کہ ہم عوام کے خیر خواہ ہیں کمیشن ہر گز نہیں کھائیں گے اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کریں گے اور ان پر چیک اینڈ بیلنس صر ف آذاد میڈیا ہی رکھ سکتا ہے جو ذر د و اشتہاری صحافت سے پاک ہو ۔ ہم اگر ترقی یافتہ مملکوںمیںاہل یورپ کا مطالعہ کریںتو ہمیںپتہ چلتا ہے کہ ان میں جو شخص جس مقصدکو لیکر میدان عمل میں نکلتا ہے تو وہ حد درجہ تک مقصد کے حصول کو کامیابی کے ساتھ حاصل کرکے دم لیتا ہے !! ترقی کی جتنی مثالیںہمارے پاس آج اگر موجود ہیں تو یہ سب ان ہی لوگوں کی محنت کے ثمرات ہیں ۔ آپ انٹر نیٹ کو دیکھ لیں دنیا ءکو ایک گلو بل ویلج بنا دیا ۔ روشنی کا ایک بلب کی ایجاد سے لیکر بڑی سے بڑی ترقی ان ترقی یافتہ ممالکو ں کے لوگوں کی محنت کا نتیجہ ہے ۔ خدا نخواستہ ہم مایوس نہیں ہمارے عوام میں او ر نوجوانوںمیں ان سے زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے مگر معاشی حالا ت اورعدم تحفظ کا شکار عوام کی صلا حیتوں کا جنازہ نکل چکا ہے ۔ ہمارے سیاستدان کی بولیاں ایک نہیں کون کسی کی زبان میں بات کرتا ہے اور کون کس کے لئے کام کرتا ہے ہمیں بحثیت قوم سوچنا ہوگا، او رمایوسی کے خول سے باہرنکلنا ہوگا۔ نوجوان ڈگریاں اٹھائے نوکریوں کےلئے در،در کے دھکے کھانے پر مجبور ہیں ۔ ہمارے سیاستدان خوشحال پاکستان کے نعرے لگا رہے ہیں ۔ میری کپٹن صفدر اور سردار یوسف سمیت پاکستان مسلم لیگ ہزارہ کے تما قائدین سے استدعاہے کہ مجھے بھی سچ لکھنے کی پاداش میں کہیں برخاست کا اشتہار نہ شائع کرادیں کیوں کہ سیاستدان اداروں پر بھی اثر انداز ہونا شروع ہوگئے ہیں، ۔۔بس حسن ابدا ل مانسہرہ کے دریمان روڈکو کشادہ کردیںتاکہ انسانی زندگیوں کو آئے روز کے حادثات سے بچایا جاسکے اور قیمتی وقت بھی بچ سکے ۔ اس مطالبہ پر اگر مجھے نوکر ی سے ہاتھ دھونا پڑے توہر گز گریز نہیں کروں گا۔


Post a Comment