” دل کا پہلا بائی پاس “
26جو ن کو اطلاع ملی کہ جمیل الرحمان تنولی لسان ٹھکرال کے چھوٹے بھائی ارشاد جو محکمہ صحت میںملزم ہیں ۔ مانسہرہ سے بارات کے ساتھ چکوال جارہے تھے کہ روات کے قریب ان کی گاڑی حادثہ کا شکار ہوگئی جس سے ارشاد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے ۔ چونکہ جمیل الرحمان تنو لی میرا گہرا دوست ہونے کے ناطے مجھ سے یہ بات برداشت نہ ہوسکی اور میں اسلا م آباد کےلئے روانہ ہوگیا ، جمعرات کو صبح 9بجے لاری اڈامانسہرہ سے کراچی کمپنی کی مسافر وین پر سوار ہوگیا۔ ہماری گاڑی کا ڈرئیو ر عمر کے آخری عشرے میں ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ کافی تجربہ کار دکھائی دے رہا تھا ۔ دوران ڈرئیونگ خود کو محفوظ رکھنے کے ساتھ دوسروں کو بھی محفوظ رکھنے کی صلا حیت موجود تھی ۔ تین گھنٹے کی مسافت کے بعد کراچی کمپنی ہماری وین پہنچی تو بارہ بجے کاوقت تھا ، فون پر رابطہ کیا تو جمیل الرحمان تنولی نے شفا ءانٹر نیشنل ہسپتال اسلام آبادآنے کو کہا ٹیکسی 150روپیہ کرایہ پر بک کی ایک بجے کے قریب میں ہسپتال پہنچ گیا ۔ ایمرجنسی گیٹ پر جمیل الرحمان میرے انتظار میں کھڑا تھا سلا م دعا کے بعد ہم دونوں آئی ، سی یو وارڈ چلے گئے ارشاد کی حالت دیکھی جمیل الرحمان نے بتایا کہ ابھی یہ قومہ میں ہے ۔ حادثہ آٹھ یوم قبل ہوا تھا ڈاکٹروں کی سرتو کوششوں سے اب اسکی حالت قدر بہتر ہے مگر دماغ پرگہری چوٹ لگنے کے باعث مکمل طور پر قومہ میںہے ، اللہ تعالی سے امید ہے کہ زندگی لوٹ آئے گی ۔اس کے بعد ہم دونوں انتظار گاہ روم میں چلے گئے جہاں پر میریضوں کے ساتھ آنے والے مرد و عورتیں کثیر تعداد میں موجود دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا ملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ بیر ون ملک کے میریض بھی زیر علا ج تھے ہسپتال کا سیکڑوں کی تعداد میں عملہ اورصفائی کا نظام دیکھ کر مجھے لگ نہیں رہا تھا کہ میں پاکستان کے کسی ہسپتال میں موجود ہوں ۔ڈاکٹر میریض کابہت زیادہ خیال رکھتے تھے ۔ارشاد کے کئی عضاءٹوٹ پھوٹ چکے تھے اور تما م ڈاکٹر ایک ہی چھت تلے موجود دکھ بحال کا موثر نظام تسلی بخش تھا ۔ بس پیسے ذرا وافر مقدار میں ہونا چاہیں۔ باتوں باتوں میں رات کے گیارہ بج چکے تھے، میں اورجمیل الرحمان تنولی G11آگئے ۔ صبح گیارہ بجے اٹھے اور ناشتہ وغیرہ کیا جمیل الرحمن صاحب ہستپال چلے گئے میں اور توصف خٹک کمرہ میں ٹھہر ے رہے ۔ دوسرا دن بھی گزرگیا شام کو پھر مریض کو دیکھنے شفاءانٹر نشنل ہستپال گئے۔ رات کے ایک بجے واپس کمرہ میں آئے اب تیسرا دن تھا میں نے جمیل صاحب سے مانسہر ہ آنے کی اجازت چاہی تو انہوںنے مذید ٹھہرنے کو کہا ہم نے بھی عذر ظاہر کیا تو وہ مان گئے اور کہا کہ فکر نہ کروں ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرتا ہوں میںنے کہا کہ کوئی بات نہیںمیں پبلک ٹرانسپورٹ سے چلا جاﺅں گا۔ انہوںنے اپنے ایک رشتہ دار کو فون کیا جسکا نام سجاد بتایا جاتاہے اس نے کہاکہ میرا دوست ہے میرافضل گلزار جو جنرنلسٹ بھی ہے دوروز سے میرے پاس ٹھہر ا تھا آج واپس جانا چاہتا ہے کیوں نہ سفراکٹھے کرلیں سجاد نے کہاکہ انتظار کرو، میرے شاہد ایک دو گھنٹے لگ سکتے ہیں میں تیار ہوکر آ رہاہوں پرواگرم ڈن ہوا تو جمیل الرحمان نے مجھ سے اجازت چاہی کہ آپ کمرہ میں انتظار کریں سجاد آنے والا ہے اس کے ساتھ چلے جانا میں ہسپتال مریض کے پاس جارہا ہوں ۔۔اور ہاں گاﺅں سے آج اور بہت سارے رشتہ دار بھی عیادت کےلئے آئے ہوئے ہیں شائد میں بھی شام تک ایک دو روز کےلئے مانسہرہ آجاﺅں کیوں کہ رمضان آنے والا ہے اور گھر میں سودا سلف بھی شائد ضرورت ہو۔ ان ہی باتوں کے ساتھ وہ ہستپا ل کے لئے روانہ ہوگئے اور میں انتظار میں رک گیا وعدہ کے مطابق سجاد نے پہنچ کر فون کیاکہ کمرہ سے نیچے سڑک پر آجاﺅ مجھے سڑ ک تک چھوڑنے کےلئے توصیف خٹک نے اپنا ملا زم بھیجا اور اس طرح میں سجاد تک پہنچ گیا ، سجادصاحب سے میر ی دوسری ملا قات تھی ایک رات کو کھانے کی میز پر ہوئی تھی مگر مجھے بالکل پتہ نہ تھا کہ یہ شخص مانسہرہ کا رہنے والا ہے ہیلو ہائے کے بعد آرام سے میں گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ گیا سجاد صاحب چونکہ ڈرئیو رکررہے تھے سیٹ بلٹ باندھا او رسروس روڈ سے موٹر وے پر پہنچے یو ٹرن لیا ۔ حد نگاہ تک لمبی سڑک اور اس پر دوڑتی گاڑیا ں عجیب منظر پیش کررہی تھی ، میں نے اپنی با ت کو سجاد صاحب کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے کہاکہ نواز شریف نے موٹر وے تو قوم کو تحفہ دیا ۔ اب دیکھونہ پالیساں نواز شریف کی ہر آنے والی حکومت اس کو فالو کرتی ہے مگر بدقسمتی دیکھو اس کی حکومت کو دوسال سے زیادہ کوئی چلنے نہیں دتیے اب عمران خان کا الٹی میٹم دیکھو میری بات کو بڑھاتے ہوئے سجاد نے کہاکہ اللہ کریں نواز شریف کی حکومت پانچ سال مکمل کرے تو ہمار ا موٹر وے حسن ابدال تا ل کاشغر کا آغاز ہو اب دیکھو گوادر پور ٹ اور سب سے بڑھ کر ایٹمی دھماکے نواز شریف دور کے سنہری کارنامے ہیں ۔ موٹر وے پر حادثات بھی کم ہوتے ہیں اور سفر بھی محفوظ ۔ ارشاد کا حادثہ بھی ٹریفک کا نتیجہ ہے اگر موٹر وے ہوتی تو شائد انسانی جان اس طرح بے دردی کے ساتھ یوں نہ کچلی جاتی ۔ اب ورثہ کا حال دیکھو ارشاد کے ماں باپ اور بھائی جب سے حادثہ ہوا ہسپتال میں بدستو ر مو جو د ہیں آزمائش دیکھو جان بھی گئی اور مال بھی خرچ ہورہا ہے ۔ غالبا روزانہ کا ایک لاکھ سے زائد کا خرچہ ہوتا ہے ۔ عام آدمی آج کے دور میں کیسے فوڈکرسکتاہے ۔آج آٹھ یوم سے ارشاد قومہ میں یعنی بدستور بہوشی کے عالم میں ہے اور ڈاکٹر سر توڑ کوششیں کررہے ہیں کہ صحت بحال ہوجائے دیکھو قسمت اور مقدر اگر روزی دانہ پانی ہوا تو ارشاد تندرست توناءہوجائیگا۔ سجاد کی باتیں سن کر مجھے دل ہی دل میں خیا ل آرہے تھے کہ انسان کتنا قمیتی ہے جسکو ہم اکثر معمولی قرار دیتے ہیں ، اسی لئے کسی نے کیا خوب کہاہے کہ صحت ہزار نعمتوں سے افضل ہے۔ سجاد نے مجھے چوہدری جاوید کی لکھی کتاب زیرو پوائنٹ کے کچھ اقتصابات یوں بیاں کئے کہ اللہ تعا لی نے دنیاکی ترقی غریب سے منسوب کی ہے میں نے کہاکہ وہ کیسے اسنے کہاکہ دیکھیں جتنی بھی ایجادا ت ہیں وہ سب غریب کے ہاتھوں سے ہوئی ہیں مثلا آپ د ل کے بائی پاس کو دیکھ لیں وہ بھی ایک ان پڑھ اور غریب چرواہے کے ہاتھوں ممکن ہوا میں سن کر چونک اٹھا کیوں کہ میں نے پہلے نہ سنا تھا کہ دل کا بائی پاس ایک غریب اور ان پڑھ سرجن کے ہاتھوں ہوا ہے سجاد نے پورا قصہ یوں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ساﺅتھ افریکہ کی یونیورسٹی جس کا نام ہے کپ ڈاﺅن یونیورسٹی ایم ہلٹن کا باپ بیمار ہوگیا وہ علاج معالجہ کےلئے گاﺅں سے شہر لا یا مگر وہ جانبر نہ ہوسکا اور فوت ہوگیا ۔ اس دران کپ ڈاﺅن یونیورسٹی زیر تعمیر تھی ،ایم ہلٹن نے اس میں بطور مزدور کام کا آغاز کیا بعد آزاں جب یونیورسٹی تیار ہوگئی تو ایم ہلٹن اس میں بطور مالی ملازمت اختیار کرلی اور اس طرح ڈیوٹی ٹائم کے بعد وہ اپنا وقت لیب میں ڈاکٹر سرجنوں کے ساتھ گزار تا اور سرچ آپریشن پر غور فکر کرتا ۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ڈاکٹروں کی ٹیم انسانی دل کے بائی پاس پر کافی پریشان دکھائی دے رہی تھی تو اس موقع پر ایم ہلٹن نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو انسان کے دل کا بائی پاس میںکردوں تما م ڈاکٹر یہ سن کر حیر ان ہوگئے کہ ایک ان پڑھ اور یونیورسٹی کا معمول ملازم اتنا بڑا داعوا وہ بھی انسانی دل کا بائی پاس کرنے کا داعوا کررہا ہے ۔ خیر جب اسکو موقع دیا گیا تو اس نے کامیاب آپریشن کرکے یہ ثابت کردیا کہ تعلیم سے زیادہ تجربہ اور تجربہ سے زیادہ جستجو کام کرنے کی جو دل سے کیا جائے ۔ آج بھی اس یونیورسٹی میں اس کا نام ادب کے ساتھ لکھاو پکارا جاتا ہے اسکے سنہری کارنامہ کے بعد ایم ہلٹن کے اعزاز میں جب پروقار تقریب ہوئی تو اسمیں ایم ہلٹن نے یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے میرے نام کے اعداد تک لکھنے نہیں آتے لہذا مجھے لکھایا پڑھایاجائے ۔ سجاد صاحب کی سحر انگیز گفتگو تو مذید سننے کو دل کرتا تھا مگر سفر تما م ہوا اس طرح ہم دونوں مانسہر ہ پہنچ آئے میں نے سجاد کا شکریہ ادا کیا کہ آپ بھی کافی معلومات رکھتے ہو آئندہ موقع ملے تو ضرور میرے آفس تشریف لائیں جس پر سجاد نے کہاکہ انشااللہ ضرور آﺅں گا ، ایک بات پھر بھی جاتے جاتے ضرو ر کرتا چلوں گاکہ غریب رات دن محنت کرتا اور امیر عیاشی کرتا ہے اگرغریب نہ ہوتا تو شائد یہ دنیا ءاتنی حسین نہ ہوتی ۔ حضورﷺ جب بھی دعا مانگا کرتے تھے تو وہ غریبوں کا احوالہ دیا کرتے تھے اور ایک مقام پر فرمایا کہ غریبوں کےلئے جنت بنائی ہے غریب بڑے کام کا ہوتا ہے ایک محنت کش حقیقی معنوں میں اللہ کا دوست کہلا تا ہے ۔ اس طرح ہمارا یہ سفر اپنے اختتام کو پہنچا میری دعا ہے اللہ تعالی ہم سے بھی کوئی نیک کام کرنے کی توفیق عطاءفرمائے کیوں کہ انسان کا کردار ہی اسکی اصل پہچان ہوتا ہے جو مر کر بھی امررہتاہے ارشاد سمیت تمام بیماروں کو اللہ تعالی کامل صحت عطاءفرمائے (آمین )۔ خاکسار میرافضل گلزار موبائل نمبر 03009115842/ 03469595551
Post a Comment