” ہم عوام اور مہنگائی“              

اگر درےا فرات کے کنارے اےک کتا بھی بھوکا پےاسا رہے گا تو قےامت کے دن اس کی پوچھ گچھ مجھ سے ہو گی ۔ےہ الفاظ حضرت عمر فاروق کے ہےں ۔دنےا مےں واحد اسلام کے نام پر بننے والی رےاست پاکستان ہے ۔آج اس ملک مےںغلط پالےسی سازوں کی کارستانی کا شاخسانہ سارا نزلہ غرےب عوام پر گرنے لگا۔ غرےب، غرےب تر ،اور امےر امےر تر ہوتا جارہا ہے ۔مہنگائی کا نہ تھمنے والا سےلاب غرےب کی ناﺅ کو بےچ مہنگائی کے سمندر برد کر دے گا۔ہمارا ملک ذرعی ملک ہے عجےب منطق رائج ہے ہمارے ملک مےں جو چےز اس ملک کی پےداوار ہے۔ان چےزوں کی قوت خرےد ااکثر آبادی خرےدنے سے لاچار ہے۔ اس غرےب عوام پر کبھی ٹماٹر ڈرون ۔کبھی پےاز ڈرون۔کبھی آلو ڈرون حملے ہو رہے ہےں۔مہنگائی کی چکی مےں پےسی ہوئی اس عوام مےں اتنی سکت نہےں رہی کہ مہنگائی کے خلاف احتجاج کر سکے اس عوام کا خون اس قدر نچوڑا گےا ہے کہ ان کی سوکھی حلق سے اونچے اےوانوں مےںبےٹھے ہوئے حکمرانوں کے خلاف آواز بھی نہےں نکل رہی ہے۔آج ہمارے معاشرے مےں آدھی برائےوں کی جڑےں اگر غور کرےں تواس مہنگائی کے نہ تھمنے والے سےلاب کی پےداوار ہےں۔آمدنی کم اور اخراجات زےادہ اچھے سے اچھے اےماندار آدمی کے قدم ڈگمگاجاتے ہےں ۔اس مہنگائی کے ہاتھوں آج شرےف عورتےں اپنی عزتےں نےلام کرنے پر مجبور ہےں۔چوری ڈاکے کسی حد منشےات فروشی ان سب عوامل کے پےچھے اس مہنگائی کا ہی ہاتھ ہے۔آج غرےب آدمی دال روٹی کے لئے سارا دن محنت مزدوری کرتا ہے۔جب شام کو تھکا ہاراگھر پہنچتا ہے۔تو ان گنت خواہشےں اسے اپنے بچوں کے چہروں پہ نظر آتی ہےں۔دن بھر وہ جسمانی طور پہ تھکتا ہے ۔رات کو اعصابی طور پہ تھک جاتا ہے۔اور کم ظرف لوگ جرائم کی طرف مائل ہو جاتے ہےں۔اور شاکر لوگ اپنی غرےبی کو اللہ کی رضا مان کر اپنے اخراجات محدود کر دےتے ہےں اوراپنے محدود آمدنی سے گزارہ کرنے کی کوشش کرتے ہےں۔امےروں کے کتوں کے لئے خوراک اسپےشل امرےکہ ےا ےورپےن ممالک سے منگوائی جاتی ہے۔کتنا فرق ہے ملت اسلامےہ مےں رہنے والے لوگوں مےں امےر کا بچہ مہنگے سے مہنگے سکول مےں تعلےم حاصل کرے جہاں اسے دنےا کی ہر سہولت مےسر ہوتی ہے ۔غرےب کا بچہ سرکاری سکولوں مےں تعلےم حاصل کرتا ہے جہاں ان مستقبل کے معماروں کی زندگی کے قےمتی اےام بے رحم وقت کی نظر ہو جاتے ہےں اکثر غرےب کا بچہ بمشکل مڈل،ےا مےٹرک پاس کر لےتا ہے۔وجہ اساتذہ کا بچوں کے ساتھ حسن سلوک کا نہ ہونا ان کی صلاحےتوں کو اجاگر نہ کرنا۔بعض جگہوں پر اساتذہ محنت کرتے ہےں اور سرکاری سکولوں کے بچے اچھی پوزےشنےں لےتے ہےں۔۔مگر وہ پرائےوٹ سکولوں کی بنسبت آٹے مےں نمک کے برابر ہے ۔اگر بد قسمتی سے غرےب کا بچہ اچھے نمبروں سے گرےجوےشن کر بھی لے تونوکری خرےدنے کی بولی مےں وہ شرےک نہےں ہو سکتا۔جس ملک مےں انصاف بھی پےسوں سے خرےد ا جائے اس ملک مےں غرےب کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہےں ہے۔۔غرےبی سب سے بڑا جرم بنتی جا رہی ہے۔کبھی اس مظلوم عوام پر بجلی کی بلوںمےن اضافہ کی صورت۔کبھی گےس کے بلوں مےں اضافے کی صورت۔ڈرون حملوں کا نہ تھمنے والا لا محدود سلسلہ شروع ہے۔آمدنی کم اخراجات زےادہ ہو جائےں تو معاشرے مےں جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے جےسے آج ہمارے ملک مےں ہو رہا ہے ۔اس مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر لوگ اپنی سگی اولادےں تک بےچنے پر مجبور ہےں۔ےہ کےسا انصاف ہے اسلام کے نام پر حاصل کرنے والے ملک مےں مہنگائی کا عنفرت صرف غرےب کو ہی نگل رہا ہے،غرےب آدمی آٹا پورا کرتا ہے تو چےنی ختم ہو جاتی اگر چےنی خرےدتا ہے توپتی ختم ہو جاتی ہے ۔آخر غرےب آدمی چوری ڈاکہ زنی نہ کرے تو پھر کےا کرے کہاں جائے ۔کس کے آگے اپنی فرےاد لے کر جائے ۔اونچی مسندوں پر بر جماں ہمارے حکمران بے شک وہ اسی ملک کے باسی ہےں ۔مگر ان کی سوچ صرف اپنی ذات تک محدود ہے غرےب کا بچہ بھوکا مرتا ہے تو مرے مگر ان کے پالتو کتے گھوڑے اس اعلی قسم کی خوراک سے شکم سےری کرےں جس خوراک کے بارے مےں غرےب کا سوچنا بھی جرم ہے۔ ان حکمرانوں کو اسی وقت احساس ہو گا جب ان کے بچے سرکاری سکولوں مےں پڑھےں اور حلال کا لقمے سے شکم سےری کرےں (خلال کے لقمے مےں صرف دال سبزی ہی بمشکل پےدا ہوتی ہے)ہمارے معاشرے مےں جرائم کی شرح صرف غربت کی مرحون منت ہے ۔اگر اسی طرح ہمارے ملک مےں مہنگائی کا نہ تھمنے والا سلسلہ چلتا رہا تو عنقرےب ہمارے ملک کے لوگ بھی افرےقہ کے لوگوں کی طرح فاقہ کشےوں کی بدولت صرف ہڈےوں کے ڈھانچوں مےں تبدےل ہو جائےں گے۔اور خانہ جنگی کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔اگر غرےب کو اس کا حق مانگنے سے بھی نہ ملا تو وہ زندہ رہنے کے لئے اپنا حق چھےننے پر مجبور ہو جائے گا۔اگر حالات اسی ڈگر پہ گامزن رہے تو جلد ممکن ہے غرےب عوام کا ہاتھ ہو گا اور امرا طبقے کا گرےبان ہو گا۔ اور روز محشر سے پہلے ہی غرےب عوام اس مہنگائی کے عنفرےت سے تنگ آکر ان کا حساب کتاب شروع کردے گی۔وقت کی لگام اب بھی ہمارے اونچے اےوانوں مےں بر جماں حکمرانوں کے ہاتھ مےں ہے۔کہ زےادہ منافع کی لالچ مےں ذخےرہ اندوزوں کو نکےل ڈالےں۔اس ملک کی پےداوار کو اس ملک کی غرےب عوام کے لئے ہی وقف رکھےں۔اب بھی وقت ہے ذرا غرےب کی جگہ پر خود کو رکھ کر سوچےں۔اور ان کے مسائل اپنے ذاتی مسائل سمجھےں ۔ان کے بچوں کا درد اپنی سگی اولاد کا درد سمجھےں۔اپنے غےر ملکی دوروں کے اخراجات محدود کر کے اس غرےب عوام کے درد کو سمجھےں ۔اور لگثری گاڑےوں کے قافلوں کو کم کرےں سرکار کے مال کو اپنا ذاتی مال نہ سمجھےں۔بلکہ اس پےسے کوغرےب عوام کاپےسہ سمجھےں۔اور ہمےشہ ےاد رکھےں دنےا فانی ہے ۔کفن کی کوئی جےب نہےں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرافضل گلزار مانسہرہ
Add caption


Post a Comment